20 دسمبر 2025 - 09:48
صہیونی مرتد ہیں، یہودی ربی

ڈیوڈ فیلڈمین نے، "دو ریاستی حل" کے نام سے مشہور فارمولے کے بارے میں کہا: "میں اس حصے کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں جو فلسطینیوں کو واپس کیا جانا ہے، لیکن اس حصے کے خلاف ہوں جو صہیونی تنظیموں کے پاس رہے گا، کیونکہ یہ کام یہودیت کی نظر میں غلط ہے اور عملی طور پر حقیقی انصاف فراہم نہیں کرتا۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ایک یہودی ربی اور "ناطوری کارتا" نامی یہودی گروپ کے رہنما نے واضح کیا کہ یہودیت اور صہیونیت میں بنیادی فرق ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف غاصب ریاست کے جرائم یہودیت کی مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں؛ اور یہودی نوجوانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ علاقے چھوڑ کر چلے جائیں۔

غزہ کی جنگ یہودیت ـ بطور مذہب ـ اور صہیونیت ـ بطور سیاسی تحریک ـ کے درمیان فرق کے حوالے سے بحث کو پہلے سے زیادہ پھیلا دیا ہے۔ غاصب صہیونی ریاست کے اس دعوے کو یہودی برادری کے اندر سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ "یہ ریاست کہ دنیا کے تمام یہودیوں کی ترجمانی کرتی ہے۔"

اسی تناظر میں، یہودی ربی اور صہیونیت مخالف تنظیم "ناطوری کارتا" کے رکن، "ڈیوڈ فیلڈمین" نے عربی21 ویب سائٹ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں، یہودیت اور صہیونیت کے درمیان بنیادی فرق پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کا یہودی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ صہیونی ریاست کے یہ مظالم اور جرائم دنیا بھر کے یہودیوں کو شدید اور سنجیدہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔

فیلڈمین نے اس انٹرویو میں مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے یہودی نوجوانوں کو براہ راست پیغام دیتے ہوئے ان سے مقبوضہ فلسطینی علاقے چھوڑنے کی اپیل کی۔

انھوں نے خبردار کیا کہ فلسطین میں جاری نسل کشی کی جنگ صرف فلسطینیوں یا مسلمانوں کو ہی خطرے ميں نہیں ڈالتی، بلکہ اس سے دنیا بھر کے یہودیوں کے خلاف نفرت، تشدد اور سلامتی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

اس یہودی ربی نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف بین الاقوامی قانون کی نظر میں ایک جرم یا صرف انسانی حقوق کے معیارات کی خلاف ورزی نہیں ہے، بلکہ یہودی مذہبی تعلیمات کی نظر میں بھی ایک جرم ہے۔"

ان کا کہنا تھا: "قتل، چوری، قبضہ، ظلم، ستم، دباؤ اور کسی قوم کو تکلیف دینا یہودی تعلیمات کی رو سے غلط اور حرام ہے۔ خاص طور پر جب یہ سب ایسے لوگوں کے خلاف ہو رہا ہو جنہوں نے صدیوں تک یہودیوں کا احترام کیا اور یہودی فلسطینیوں کے زیر سایہ اور ان کی حمایت سے مستفید رہے، یہاں تک کہ 1920 کی دہائی میں صہیونیت مقدس سرزمین میں داخل ہوئی۔"

فیلڈمین نے زور دے کر کہا: "آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے اور ہم لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ صہیونی پروپیگنڈے سے عبور کریں اور سمجھیں کہ ان جرائم کی مخالفت کا یہودیوں کی مخالفت یا یہود دشمنی (Anti-semitism) سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ 'صہیونیت' 'یہودیت' سے ارتداد (مرتدّ ہونے) کا نام ہے۔"

پوچھا گیا کہ "کیا غاصب صہیونی ریاست دنیا کے تمام یہودیوں کی ترجمانی کرتی ہے"، تو فیلڈمین نے واضح کیا: "یہ ریاست ہرگز تمام یہودیوں کی ترجمان نہیں ہے اور یقینی طور پر یہودی مذہب کی بھی نمائندگی نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں یہودیوں کی ایک بڑی آبادی ان جرائم کی خلاف ہے اور خود یہودیت بھی ایسے اعمال کی صریح مخالفت کرتی ہے۔"

اس یہودی ربی نے مزید کہا: "بیدار ضمیر، سچے اور انصاف پسند انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ جب ہم اپنی آنکھوں سے دو سال سے جاری نسل کشی دیکھ رہے ہیں ـ جو ابھی تک رکی نہیں ہے، ـ تو وہ اپنی آواز بلند کریں۔"

فیلڈمین نے یہودیت اور صہیونیت کے درمیان فرق کے قائل ہونے کی ضرورت پر دوبارہ زور دیتے ہوئے کہا: "یہودیت اور صہیونیت کے درمیان گہرے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہودیت ایک مذہب ہے، صرف ایک مذہب، جو خدا پر ایمان اور اس کے احکام پر عمل، پر مبنی ہے۔ اس میں نہ سیاست ہے، نہ قوم پرستی، نہ نیشنلزم اور یقینی طور پر نہ ہی جرم۔ اس کے برعکس، صہیونیت ایک مکمل سیاسی تحریک ہے جس کی بنیاد ایسے افراد نے رکھی جو یہودی مذہب کے اصولوں کے پابند نہیں تھے اور جس مذہب کی پیروی سے وہ انکار کرتے ہیں، انہی نے اس مذہب کو ان جرائم کا جواز دینے کا ذریعہ بنا دیا ہے جو یہودی مذہب میں حرام ہیں۔"

صہیونیت کے تمام وعدے جھوٹ تھے، یہودی ربی

انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہ "مقبوضہ فلسطین میں مقیم آبادکار یہودی نوجوانوں کے لئے ان کا پیغام کیا ہے؟"، کہا: "میں وہاں کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ بیدار ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ صہیونی تحریک نے یہودیوں سے امن، تحفظ اور وطن کے بارے میں جو وعدے کیے تھے، وہ بنیادی طور پر غلط تھے۔ یہ وعدے شروع سے ہی یہودی عقیدے کے بنیادی اصولوں سے متصادم تھے۔"

فیلڈمین نے کہا: "ہو سکتا ہے کہ شروع میں کچھ لوگوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا ہو، لیکن کم از کم آج انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ صورتحال کسی کے فائدے میں بھی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے صہیونی ریاست بے شمار جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، بڑا ظلم ہو رہا ہے اور ایک بڑا خطرہ سب ہی فریقوں کو لاحق ہے۔"

یہودی ربی نے واضح کیا: "ہمیں صہیونی تحریک کی حمایت بند کرنی چاہئے اور ہمیں اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ جب تک یہ صہیونی نظام قائم رہے گا، سب خطرے میں ہیں، بشمول خود یہودی۔"

انہوں نے صریح لہجے میں مزید کہا: "میں تمام یہودیوں، مردوں اور عورتوں، کو اس بات کی ترغیب دلاتا ہوں کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے چھوڑ دیں، کیونکہ ان کی جان خطرے میں ہے، ان کی روحانیت خطرے میں ہے، ان کی یہودی مذہبی شناخت خطرے میں ہے اور یہ علاقہ بہت خطرناک ہے۔ ہم صرف لوگوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ صہیونی پروپیگنڈے سے عبور کریں، اور ان سے متاثر نہ ہوں، صہیونیت کو چھوڑ دیں، صہیونی وجود سے دور ہو جائیں اور صہیونیت سے پہلے کے یہودیوں کی تاریخی کیفیات کی طرف پلٹ جائیں۔"

فیلڈمین نے، "دو ریاستی حل" کے نام سے مشہور فارمولے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا: "میں اس حصے کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں جو فلسطینیوں کو واپس کیا جانا ہے، لیکن اس حصے کے خلاف ہوں جو صہیونی تنظیموں کے پاس رہے گا، کیونکہ یہ کام یہودیت کی نظر میں غلط ہے اور عملی طور پر حقیقی انصاف فراہم نہیں کرتا۔"

انھوں نے آخر میں زور دے کر کہا: "ہم یہ کہتے ہیں کہ فلسطین پر صہیونی قبضہ مکمل طور پر ختم ہونا چاہئے، مظلوموں کے ضآئع ہونے والے تمام حقوق انہیں واپس ملنے چاہئیں، تمام بے گھر افراد کو واپس آنے کی اجازت ملنی چاہئے اور حکومت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار فلسطین کے مقامی لوگوں کے سپرد ہونا چاہئے۔ یہ فلسطین ہی ہے جسے اپنی حکومت کا انتخاب کرنا ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha